https://bitly.ws/3dIHu google-site-verification: google51f0329d9f02848f.html Unique Poetry For You
google-site-verification: google51f0329d9f02848f.html
Showing posts from July, 2023Show All
فرشتے جہاں سلامی کوآئیں وہ  در حسین کا ہے۔  رزق بنتا ہے جہاں سے وہ گھر حسین کا ہے۔  لاکھوں کا لشکر بھی جھکا نہ سکا حیدر کے لعل کو۔  جو کٹ تو گیا لیکن جھکا نہیں  وہ سر حسین کا ہے
لباس ہے پھٹا ہوا،  غبار میں اٹا ہوا  تمام جسم نازنیں،  چھدا ہوا کٹا ہوا
کبھی گرے کبھی اٹھے یوں مقتل کی خاک پر  بصورت طفل حسین پہنچے علی اکبر کی لاش پر
خون سے چراغ دین کا جلایا حسین نے،  رسم وفا کو خوب نبھایا حسین نے،
فرشتے جہاں سلامی کووہ  در حسین کا ہے۔  رزق بنتا ہے جہاں سے وہ گھر حسین کا ہے۔  لاکھوں کا لشکر بھی جھکا نہ سکا حیدر کے لعل کو۔  جو کٹ تو گیا لیکن جھکا نہیں  وہ سر حسین کا ہے
کہانی بس اتنی سی ہے   یزید تھا حسین ہے
جام پہ جام پیا اور مسلمان رہے قتل اماموں کو کیا اور مسلمان رہے یہی دین ہے تو اس دین سے توبہ
غرور ٹوٹ گیا کوئی مرتبہ نا ملا ...!!! ستم کے بعد بھی کچھ حاصلِ جفا نا ملا سرِ حسین ملا ہے یزید کو لیکن ...!!! شکست یہ ہے کہ پھر بھی جھکا ہوا نا ملا
وہ اٹھا رہے ہیں چلمن          وہ دکھا رہے ہیں صورت کہیں ہوش اڑ نہ جائیں          کہیں دل مچل نہ جائیں میں چراغ ناتواں ہوں
نہ کار چاہیے نہ موتی چاہیے  ہمیں تو بس یہ کھوتی چاہیے
شوخی شباب حسن تبسم حیا کے ساتھ دل لے لیا ہے آپ نے کس کس ادا کے ساتھ
کھلی زلفیں گلابی ہونٹ اور غضب کی آنکھیںآپ ویسے ہی جان مانگ لیتے اتنا اہتمام کیوں
گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر ہوش و خرد شکار کر قلب و نظر شکار کر ..
دل میں اک شور سا اٹھا تھا کبھی پھر یہ ہنگامہ عمر بھر ہی رہا مجھ میں
کون کہتا ہے سنورنے سے بڑھتی ہے خوبصورتی دلوں میں چاہت ہو تو چہرے یوں ہی نکھر آتے ہیں
حسن جادو ہے ترا ،پیار کی خوشبو جادو تیرے چہرے کی ہنسی،آنکھ کا آنسو جادو.
محبت کے مسافر جب پلٹنا بھول جاتے ہیں تو ان کے چاہنے والے سنورنا بھول جاتے ہیں کچھ لوگ پل بھر کی اجازت لے کر آتے ہیں مگر پھر جد عمر بھر دل سے نکلنا بھول جاتے ہیں
کمال حسن ہے حسن کمال سے باہر ازل کا رنگ ہے جیسے مثال سے باہر
گلابوں کو نہیں آیا ابھی تک اس طرح کھلنا تجھے سوچنے سے جس طرح میرا چہرا کھل جاتا ہے
کوئی مر جائے کسی پر کہاں دیکھا ہے جائیے! جائیے! سرکار، ہم نے بھی جہاں دیکھا ہے
یُوں جُستجُوئے یار میں آنکھوں کے بَل گئے ہم کُوئے یار سے بھی کُچھ آگے نکل گئے         واقف تھے تیری چشمِ تغافل پسند سے
زخم دینا تو مجھے اس کی دوا بھی دينا تم جدا ہوتے ہوئے مجھ کو ہنسا بھی دينا خود مرے زخم پہ تم آکے لگانا مرہم دل کے شعلوں کو لگاتار ہوا بھی دینا
قبضہ ناحق نہ کیجئے خود پر آپ اپنـــــے نہیـــں ہمارے ہیں
خوف رہتا تھا کہیں بُھول نہ جاؤں سب کچھ سبَق ایسا تھا کہ دہرائی سے ڈر لگتا تھا
کسی کو سونپا گیا تُو بغیر محنت کے مری کمائی کوئی چھین لے گیا مجھ سے
دل بھی ہے بیتاب، دل کی حسرتیں بھی بیقرار کون ہے سُکھ ســـــے؟ کسے آرام ہے تیرے بغیر؟
‏تیرے ہجر میں گزرے ہوئے سالوں سے محبت  ‏یہ حال ہےکے پاؤں کے بھی چھالوں سے محبت  ‏جو تجھ سے ہو وابستہ اُس ہر چیز سے هے عشق  ‏تیرے نام سے تیرے ذکر سے حوالوں سے محبت..!!!
اِک تِرے ساتھ کی حسرت یہاں تک لائی مُجھے  ورنہ کُچھ بھی تو نہ تھا -رختِ سفر میں میرے
ہوتا  اگر  مطلب  تو  کب  کا  چھوڑ  دیتی   ارادہ  وفا  کا  ہے  الزام  جو  بھی  آۓ  پرواہ  نہیں
۔تجھ کو دیکھوں تو نگاہیں نہ ہٹانا چاہوں   اک لمحے پہ ٹھہر جائے زمانہ چاہوں     تجھ سے اک ربطِ خیالی ہی سہی ربط تو ھے   میں تو اک سہل سا جینے کا بہانا چاہوں
نہ  جانے  کیسے  لوگوں  سے  پڑ گیا  ہے  واسطہ    ذکرِ  خدا  تو  کرتے  ہیں ۔ خوفِ  خدا  نہیں کرتے
تم نے اچھا کیا تنہائی دی،   کچھ نہ دیتے تو گلہ رہتا،
ہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا     مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
ایسا نہ کوئی دن ہے تم کو نہ پکارا ہو   ہر سمت دیا رکھا ہر شام محبت کا
تم کو فرصت ہو اگر سننے کی  تو کرنے والی ہزار باتیں ہیں۔
دل رو رہا ہے اور ہیں ہونٹوں پہ قہقہے  مجھ سا کوئی کہیں ہے منافق تو لے کے آ
دل چاہتا ہے کچھ الفاظ لکھوں ‏جس میں سارے احساس لکھوں ‏جو جانتا نہیں کوئی ‏وہ سارے میں راز لکھوں
میری تلاش کا جرم ہے یا میری وفا کا قصور  جو دِل کے قریب آیا وہی بے وفا نکلا
کھل رہے ہیں گلاب زخموں کے   شکریہ آپ کی نوازش کا
میں ہر طرح کے اندھیروں میں آزماتا ہوں    یہ روشنی جو مرے دل میں تیرے نام کی ہے
دل چاہتا ہے کچھ الفاظ لکھوں ‏  جس  میں سارے احساس لکھوں
جودل میں قیام کرتےہیں       وہی جینا حرام کرتے ہیں
کس قدر یادیں ابھر آئی ہیں تیرے نام سے  ایک پتھر پھینکنے سے پڑ گئے کتنے بھنور  امجد اسلام امجد
کیــــوں مــــانیــــں بــــات ہــــم زمــــانــــے کــــی       زنــــدگــــی ہمــــاری ہــــے تــــو انــــداز بھــــی ہمــــارا ہــــوگــــا•
میری رُوح میں اِتنی اندر تک بَس گۓ ہو تُم کہ تُمہیں بُھولنے کے لیے مُجھے ایک بار تو مَرنا ہو گا
مجھ کو تو پسند یے اپنی هر ادا میرا مطلب میں اچھی هوں تم مجھ په کیوں نهیں هوتے فدا
                                        مٹ چکے زھن سے سب یاد گزشتھ کے نقوش پھر بھی اک چیز ایسی کھ فراموش نھیں
رابطے راستے واسطے کچھ نھیں پھلے جیسا   بس دل اداس ھے اور بھت  اداس ھے
          ھم کو کیا کیا نا میسر تھا تیرے بعد مگر دل نے پھر بھی تیری یادوں پے قنا عت کر لی
ایک زخم مجھ کو چا ہیے میرے مزاج کا  یعنی ہرا بھی چاہیے گہرا بھی چاہیے۔